جولائی 13, 2016

سیکولر کہلانے والے بھارت کے پاس اب کیا دلیل ہے: کالم نگار | نصرت جاوید

انتہاء پسندی کے زہر سے ذہنوں کو گمراہ کرنے اور دلوں میں کدورتیں بھرنے کے لئے جو زہر استعمال کیا جاتا ہے اس کے لئے بنیادی جوہر عموماََ ’’تاریخ‘‘ ہی سے کشید کیا جاتا ہے۔ کوئی ٹھوس حوالے موجود نہ ہوں تو ’’تاریخ‘‘ گھڑلینے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔

مثال کے طورپر ’’افغان جہاد‘‘ کی تب وتاب کو رواںرکھنے کے لئے یہ فقرہ کئی دہائیوں تک کسی وظیفے کی طرح دہرایا جاتا رہا کہ افغانستان دُنیا کا وہ واحد ’’ملک‘‘ ہے جو کبھی غیروں کے قبضے میں نہیں رہا۔ اسی لئے سکندر اعظم سے لے کر امریکی سامراج تک ہر Empireکا قبرستان ثابت ہوا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے اچھے بھلے ’’عالموں‘‘ نے بھی یہ حقیقت یاد رکھنے کی زحمت گوارانہ کی کہ ’’افغانستان نام کا ملک تو ایجاد ہی 1747ء میں ہوا تھا۔ اس سے قبل کابل ہو قندھار ہو یا پھر ان دونوں شہروںسے کہیں زیادہ تاریخی اور تخلیقی ہرات، ہمیشہ دہلی یا اصفہانمیں بیٹھے شہنشاہوں کے ’’صوبے‘‘ ہوا کرتے تھے۔

کابل، مغل سلطنت کا ایک صوبائی مرکز تھا۔ ظہیر الدین بابر کو اس شہر سے عشق تھا۔ اسی لئے مرنے کے بعد اس نے یہاں دفن ہونے کی وصیت لکھوائی تھی۔ اس وصیت پر عمل ہوا۔ اگرچہ اس کی موت کے بعد دہلی کے تخت پر بیٹھنے والے ہمایوں کو اصفہان جاکر پناہ لینا پڑی کیونکہ دہلی پر ایک ’’افغان ‘‘شیرشاہ سوری قابض ہوگیا تھا۔اس ’’افغان‘‘ شہنشاہ نے مگرجرنیلی سڑک بنانے کا آغاز پشاور سے کیا تھا کابل سے نہیں ۔ کیونکہ وہاں اس وقت بھی بابر کا بیٹا -کامران-جس کے نام پر بنی بارہ دری آج بھی لاہور کے دریائے راوی میں نظر آتی ہے- تخت نشین تھا۔ افغانستان کی ’’تاریخ‘‘ مگر میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

دل میرا کشمیر میں اٹکا ہوا ہے۔جس کی اپنی ایک ٹھوس تاریخ ہے جو کئی ہزار برس پرانی ہے۔ اس کی حیران کن ’’تاریخ‘‘ سے بھی مگر انتہاء پسندوں نے اپنی اپنی پسند کے مخصوص حصے چن لئے ہیں اور ان میں سے زہریلا جوہر کشید کرتے ہوئے ذہنوں کو گمراہ کرنے دلوں میں کدورتیں بھرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

1947ء میں ’’برٹش انڈیا‘‘ کو دو ملکوں میں تقسیم کرکے انگریز یہاں سے چلا گیا تھا تو دلی سرکار نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو جائزثابت کرنے کے لئے مختلف النوع دلائل ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مرتے دم تک اپنے ’’کشمیری پنڈت‘‘ ہونے پر نازاں نہرو کو ’’سیکولر‘‘ ہونے کا دعویٰ تھا۔کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے لہذا وہ مذہبی کے بجائے جدید سیاسی دلائل گھڑتا چلاگیا۔ اس ضمن میں اس کو مزید آسانیاں اس لئے بھی میسر ہوگئیں کیونکہ اس کے دور میں کشمیری قوم پرستی کی واحد علامت سمجھے جانے والے شیخ عبداللہ نے پاکستان میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ خواہش شیخ عبداللہ کی اصل میں اگرچہ یہ رہی کہ کسی نہ کسی طرح ریاستِ جموںوکشمیر کا وہ جداگانہ اور کافی حد تک خودمختار ڈھانچہ برقرار رہ سکے جو ڈوگرہ مہاراجوں نے قائم کیا تھا۔اس ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی تمنا میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتا شیخ عبداللہ دراصل عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر اس خطے کا مہاراجہ ہی بننا چاہتا تھا۔

تاریخ مگر بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ ایک جگہ رُک نہیں سکتی۔ ثبات اس میں صرف تغیر کو نصیب ہوتا ہے۔ عوامی مقبولیت کے زعم میں ’’تاریخ‘‘ کو ایک خاص ڈھانچے اورنظام تک محدود رکھنے کی کوششیں کرتا شیخ عبداللہ اسی لئے ہیرو سے زیرو ہوکر مرا۔ شیخ عبداللہ بھی لیکن میرے آج کے کالم کا اصل موضوع نہیں۔

مجھے حیرانی اور پریشانی ہے تو اس بات پر کہ خود کو ’’سیکولر‘‘ کہلانے والی دلی سرکار جسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت -آباد ی کے حوالے سے - کہلوانے کا شوق بھی ہے، وادیٔ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے وحشت وبربریت کی انتہائوں کو چھورہی ہے۔ نہتے اور معصوم نوجوانوں کو محض فوجی اور نیم فوجی دستوں کی قوت سے اپنا غلام بنائے رکھنے کے لئے مگر اس کے پاس اب کوئی ’’سیکولر‘‘ دلیل باقی نہیں رہی۔ وادیٔ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے دلی سرکار کے پاس اب بہانے ہیں تو وہ اس ’’تایخ‘‘ سے مستعار لئے جارہے ہیں جو کشمیر کے ہندو پنڈتوں نے اپنے دلوں اور دماغوں میں ابھی تک لبارکھی ہے۔اس تاریخ کو زندہ رکھنے کیلئے چند ٹھوس علامتیں بھی درکار تھیں۔ بدقسمتی سے امرناتھ کی صورت ایک علامت آج بھی موجود ہے۔

ہمالیہ کی چوٹیوں پر جمع ہوئی برف پگھل کر جب وادیٔ کشمیر کے دریائوں کی صورت بہنا شروع ہوجاتی ہے تو سری نگر سے کئی میل دور موجود ایک غار میں اس برف کے قطرے گرکر ایک ایسی شکل بنادیتے ہیں جو ہندوئوں کے مہادیوتائوں میں سے ایک -شیوا- سے منسوب علامت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔

اسی غار تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کی چڑھائی ہے۔ راستے تنگ ہیں اور پگ ڈنڈیاں انتہائی خطرناک۔ سفر پیدل کرنا ہی زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔ خچر کی سواری اگرچہ سفر کو ذرا آسان بنادیتی ہے۔

امرناتھ کہلاتا یہ غار یقینا ہندومذہب کے حوالے سے ایک اہم ترین علامت ہے۔ اس کی ’’خبر‘‘مگر بھارت کے کئی ہندو انتہاء پسندوں تک 1990ء تک بھی نہیں پہنچی تھی۔ برطانوی سامراج نے ویسٹ انڈیزمیں اپنی نوآبادیوں میں بھارت کے یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیہاتوں سے جوخاندان لے جاکر کاشتکاری کے لئے بسائے تھے ان میں سے ایک خاندان کے ہاں وی ایس نیپال نامی لڑکا پیدا ہوا۔لندن میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس میں ناول نگار بننے کی لگن شدید تر ہوگئی۔ ویسٹ انڈیز سے آئے اس بھارتی نژاد نے جب انگریزی لکھی تو اس زبان کے مہا کلاکاروں کو بھی حیران کردیا۔ پھر اسی نیپال نے اپنی ’’جڑوں کی تلاش‘‘ کی خاطر بھارت یاتراکا فیصلہ کرلیا۔ بھارت پہنچ کر اسے مگر بہت مایوسی ہوئی۔ اپنی اس مایوسی کا اظہار اس نے اپنی کتاب میں کھل کر کیا۔ دلی سرکار اس کتاب سے بہت ناراض ہوئی۔ بھارت کے قبضے میں موجود وادیٔ کشمیر پہنچ کر البتہ اسے کچھ راحت ملی۔ راحت کے ان ہی ایام میں اس نے امرناتھ کا ذکر سن کر وہاں تک پہنچنے کا کشت بھی بھگتا۔

اس کی کتاب نے دلی سرکارکو چراغ پا تو ضرور کیا مگر ہندو انتہاء پسندوں کو اسی کتاب کی بدولت وادیٔ کشمیر کو ’’آریہ ورت کا اٹوٹ انگ‘‘ ثابت کرنے کے لئے امرناتھ کے آغاز کی صورت میں ایک ٹھوس حوالہ مل گیا۔بھارتی معیشت میں تھوڑی خوش حالی آئی تو نودولتیے ہندوئوں نے ’’امرناتھ یاترا‘‘کو عبادتی مشن کی صورت دے ڈالی۔ یاترا کے پھیلتے چلن نے سیاحوں کی محتاج وادیٔ کشمیر کو چند معاشی فوائد بھی یقینا مہیا کئے مگر اب یہی یاترا کشمیر ہی کے ماحولیاتی حسن کو تباہ کرنے کے ساتھ ہی ساتھ وہاں کے نوجوانوں کے لئے عذاب بھی بننا شروع ہوگئی ہے۔

اس یاترا کے شروع ہونے کے سیزن میں یاتریوں کے ’’تحفظ کو یقینی بنانے‘‘ کے لئے قابض افواج مزید وحشی ہوجاتی ہیں۔ برہان وانی کو ’’حزب المجاہدین کا خوفناک کمانڈر‘‘ ٹھہراکر اسی بہانے ماردیا گیا ہے ۔ اس کی وحشیانہ ہلاکت نے وادی کے لوگوں میں جو غصہ ابھارا اس پر قابو پانے کے لئے قابض افواج ابھی تک 30سے زیادہ محض نعرے لگاتے اور پتھر پھینکتے نوجوانوں کو شہید کرچکی ہے۔ تلخی اتنی بے قابو ہوچکی ہے کہ وادیٔ کشمیر کی نام نہاد ’’منتخب‘‘ وزیر اعلیٰ، محبوب مفتی، حریت کانفرنس میں جمع ’’علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں‘‘ سے نوجوانوں کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دینے کی استدعا کررہی ہے۔ تاریخ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ایک جگہ تھم کر نہیں رہ جاتی۔ ثبات یہاں صرف تغیر ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ حریت کانفرنس، میری ناقص رائے میں کسی زمانے میں ’’شیر کشمیر‘‘ کہلاتے شیخ عبداللہ کی طرح کشمیر کی جدید ترین نسل کواب غیر متعلق اور بے اثر نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیر کی اس جدید ترین نسل کو ہم پاکستانی بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر اب بھی وانی جیسے نوجوانوں کے جنازے میں پاکستانی جھنڈے لہراتے نمودار ہوتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت 

کوئی تبصرے نہیں:
Write comments

مشہور اشاعتیں

گوگل اشتہار

تازہ ترین خبریں